مضامین

دیامر کا مثبت چہرہ

شفقت علی انقلابی

تین روز قبل ہونے والی دہشتگردی کے خلاف گاہکوچ سے ہنزہ اور سکردو سے اسلام آباد تک احتجاج ہوئے۔
زیر نظر فوٹو ضلع دیامر کے ضلعی ہیڈ کوارٹر چیلاس میں سانحہ ہُڈور موڈ کے خلاف ہونے والا احتجاج ہے۔
ضلع دیامر بظاہر جس سے دیگر اضلاع کے لوگوں کو ان کے حدود میں ہونے والے واقعات کی وجہ سے اکثر شکایت رہتی ہے۔۔ مگر ہماری رائے اس بابت بھی تھوڈی مختلف ہے۔ گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں میں موجود قبائلی روایات تقریبا ختم ہوچکی ہیں مگر ضلع دیامر میں یہ روایت اب تک مضبوط ہیں۔
دیامر میں گور گوہر آباد سے چیلاس تک کے علاقے کے علاوہ دیگر علاقوں میں مہاراجہ جموں کشمیر کے دور, انگریز کے ایجنسی کے دور, ایف سی آر کے دور سے آج تک قبائلی نظام چلا آرہا ہے۔
اب دیگر علاقوں میں مختلف نظام ہونے کے سبب اہلیان دیامر کے لئے دیگر اضلاع کی روایات جبکہ دیگر اضلاع کو دیامر کی روایات کو سمجھنے اور ماننے میں خاصی دشواری ہوتی ہے۔ انگریز نے جس طرح صوبہ سرحد سے محلقہ قبائلی علاقوں کو الگ نظام میں رکھا تھا اور وہاں 2018 تک مختلف نظام برقرار رہا۔
پشاور سے ایک گھنٹہ مسافت کے ساتھ ہی جب ایجنسی کا علاقہ شروع ہوتا تھا تو وہ بلکل مختلف ہوتا تھا۔ ٹھیک اسی طرح انگریز نے ایجنسی کے وقت ہمارے دیامر کے بہت سارے علاقوں کو یاگستان یعنی قبائلی علاقہ قرار دے کے وہاں گلگت ایجنسی کے مقابلے میں منفرد نظام رائج کیا۔ اور پچاس کی دہائی میں دیامر کے اقابرین نے پاکستان کے ساتھ کئے جانے والے معاہدہ میں بھی اپنے لئے اسی نظام کی ضمانت مانگی جس کت سبب آج تک قانون کا نظام دیامر میں دیگر علاقوں سے مختلف رہا۔
اب گلگت بلتستان تو چھوٹا سا علاقہ ہے ساری دنیا ایک گلوبل گاوں کا روپ دھار چکی ہے ایسے میں منفرد روایات سے اشنا علاقے کے لئے دیگر کے ساتھ چلنا خاصہ دشوار ہوتا ہے۔
ہم دیگر اضلاع والوں کو دیامر سے شکایت اپنی چگہے پرمگر ہم نے غور کرنے کی کوشش ہی نہیں کیا ہے کہ اہلیان دیامر خود اس نظام کے سبب کتنی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
دیامر کے لوگ بھی دیامر ڈویژن اور گلگت ڈویژن کے لوگوں کی نسل سے ہی تعلق رکھتے ہیں ۔۔ ہم ذبان بھی ہیں۔ خانی رشتے بھی ہیں مگر نظام میں فرق ہے۔ اب گلگت, غذر, ہنزہ نگر اور استور میں معمولی لڑائی جھگڑا ہوتا ہے تو فوری پولیس کاروائی ہوتی ہے اور عدالتی کاروائی کا آغاز ہوتا ہے اس کے مقابلے میں دیامر بڑے بڑے کیسیزمیں بھی جرگوں کی روایت ہے۔
جدید نظام کی جس طرح اپنی خوبی خامیاں ہوتی ہیں اسی طرح قبائلی نظام کی اپنی خوبی خامیاں ہوتی ہیں۔
کل کے اسمبلی اجلاس میں کچھ ممبران اسمبلی نے جزباتی ہوکے دیگر علاقوں کے لوگوں کے لئے بھی کھلے عام اسحلہ رکھنے کی اجازت کا مطالبہ کیا ایسے مطالبات 24 سال قبل جزباتیت میں ہم بھی کرتے تھے حالانکہ ایسے مطالبات درست نہیں۔
کاش ہم یہ سوچتے کہ بندوق کے کھلے عام استمال سے دیامر کا عام انسان کتنا متاثر ہوتا ہے۔ کسی علاقے میں چند لوگوں کے نام کے ساتھ کمانڈر لکھا دیکھ کے اور اسحلہ کی نمائش کے ساتھ ویڈیوز دیکھ کے میلوں دور بیٹھے ہوئے لوگ اتنے متاثر ہوتے ہیں تو دیامر کو دنیا کے مقابلے میں کھڑا کرنے کے خواہش منداہلیان دیامر خود کتنے متاثر ہوتے ہونگے۔ کاش ہم ان کا درد بھی محسوس کرتے.
ہمیں اہلیان دیامر کی طرف انگلیاں اٹھانے سے پہلے اس نافظ نظام کی خامیوں پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔
دیامر میں لفظ کمانڈر کا تخلص کچھ لوگوں کے لئے اہلیان دیامر نے نہیں دیا ہے۔۔ نہ ہی اہلیان دیامر بحثیت قوم ایسی کاروائیوں سے خوش ہیں۔
سانحہ ہُُڈور کے خلاف سب سے بڑا احتجاج چیلاس شہر میں ہونا اور اس میں ہزاروں لوگوں کی شرکت کو تازہ ہوا کا جھونکا سمجھنا چاھئیے۔
اس جلسے نے یہ ثابت کیا کہ اہلیان دیامر خود بھی یہ چاھتے ہیں کہ دیامر کے چہرے پر بدنما داغ بننے والے مُٹھی بھر لوگوں کے خلاف کاروائی ہو۔۔
اپوزیشن لیڈر کاظم مثیم کی طرح ہم سب گلگت بلتستان کے لوگوں کو بھی یہ مطالبہ کرنا چاھئیے کہ اپریشن کا نام پر دیامر کے عام لوگوں کو ہرگزتنگ نہ کیا جائے بلکہ ایسی کاروائیوں کا ٹریک ریکارڈ رکھنے والے لوگوں کے خلاف کاروائی کی جائے۔
دیگر اضلاع کے لوگوں کو بھی دیامر کے نظام جبکہ اہلیان دیامر کو دیگر اضلاع کے نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
کسی بھی علاقے سے نفرت ہرگز درست نہیں۔۔۔
گلگت بلتستان ہم سب کا گھر ہے۔ دیامر, استور, گلگت, غذر, ہنزہ, نگر , سکردو, شگر, کھرمنگ اور گانچے اس گھر کے دس کمروں کے نام ہیں۔گھر کا کوئی بھی مکین گھر کے ایک کمرے میں معمولی خرابی پر اس کمرے پر ڈائنامائٹ لگانے کی ہرگز بات نہیں کرسکتا ہےکیونکہ ایک کمرے پر ڈائنامائٹ لگےتو پورا گھرتباہ ہوتا ہے۔
آئیں ہم سب مل کے اصل مجرموں کو ہر صورت کیفر کردار تک پہنچانے کی بات کریں۔اہلیان دیامر نے بڑا جلسہ کرکے پورے گلگت بلتستان کو مثبت پیغام دیا ہے۔
ویلڈن دیامر
ویلڈن دیامر یوتھ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button