گلگت بلتستانمضامین

دیامر بھاشہ ڈیم

تحریر عثمان بلوا

تحریر : عثمان بلوا

دیامر بھاشہ ڈیم پراجکٹ پر کام کرنے کیلئے سب سے پہلے 1980ء میں غور کیا گیا تھا اور اس کے ساتھ اس پراجیکٹ پر مختلف وجوہات کی بنا پر کام کو آگے نہیں بڑھایا جاسکا سب سے پہلے اس ڈیم کی فزیبلٹی رپورٹ 2004ء کو تیار کی گئی تھی جبکہ 2005ء سے 2008ء تک کے درمیانی عرصے میں ایک بار پھر اس کی فزیبلٹی اور ڈیزائن میں کام جاری رہا اس کے بعد بھی اس میگا پراجیکٹ پر کام شروع کرنے کیلئے کئی مرتبہ بحث مباحثہ ہوتا رہا مختلف حکومتوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں اس پراجیکٹ پر کام شروع کرنے کیلئے افتتاح بھی کرتے رہے .
ایک رپورٹ کے مطابق اس پراجیکٹ پر 2008ء کی سروے کے مطابق کل 12 ارپ ڈالر کی لاگت لگائی گئی تھی اور 2013ء کی سروے کے مطابق 14 ارپ ڈالر جبکہ 2018ء کی سروے کے مطابق اس میگا پراجیکٹ پر کل لاگت 24 ارپ ڈالر لگائی گئی ہے 2015 سے اس پراجیکٹ کیلئے زمین حاصل کرنا شروع کیا گیا تھا اس ڈیم میں کل 175 ارپ روپئے زمین حاصل کرنے کیلئے رکھیے گئے تھے
2018ء میں اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان ثاقب نصار نے حکومت پاکستان کو حکم جاری کیا کہ جلد از جلد اس پراجیکٹ پر کام شروع کیا جائے اور اسکے ساتھ ساتھ اس پراجیکٹ کیلئے چندہ مہم بھی شروع کیا گیا جس کی بدولت کل 12175081380 روپئے جمع ہوئے.
2020ء میں اس وقت کے وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے اپنی خصوصی دلچسپی سے اس پراجیکٹ پر باقاعدہ عملی طور پر کام شروع کروایا اور اس میگا پراجیکٹ کو جلد از جلد مکمل کرنے کیلئے 2028ء تک مکمل کرنے کا بھی اعلان کیا گیا واپڈا کی ایک رپورٹ کے مطابق دیامر بھاشہ ڈیم سے 16500 نوکریاں اور 4500 میگاواٹ سستی بجلی حاصل ہوگی.
1960ء کے بعد پاکستان کا یہ سب سے بڑا اور میگا پراجیکٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے اس ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 8.10 ملین ایکٹر فٹ ہوگی جبکہ 6.40 ملین ایکٹر پانی ہمہ وقت موجود رہے گی
رپورٹ کے مطابق اس پراجیکٹ کی تعمیر سے کل 30 دیہات اور مجموعی طور پر 2200 گھرانے متاثر ہونگے جن کی آبادی تقریباً 22 ہزار ہوگی جبکہ 500 ایکٹر زرعی زمین کا وسیع علاقہ اس میں زیر آپ آئے گا
اس پراجیکٹ کی وجہ سے دیامر کے تمام تاریخی چٹانیں جو ہزاروں سال پرانی مختلف مزاہب کے بنائے ہوئے ہیں تمام ڈوپ جائینگے اس کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کے صدیوں پرانے آباؤاجداد کے قبرستان ، مساجد ، گھر بار ، کاروبار کلچر اور مقامی رہن سہن سب ڈوپ جائینگے
پاکستان کے اس میگا پراجیکٹ کیلئے دیامر کے عوام نے ان تمام چیزوں کی قربانی سے دریخ نہیں کیا اس کے باوجود ابھی تک سینکڑوں ایکڑ زمین کا معاوضہ ادا نہیں کیا گیا اور مختلف ہیلے بہانوں سے غریب اور مظلوم عوام کو ابھی تک کئی چلہوں کی ادائیگی نہیں کی گئی ہے
اب ضرورت اس امر کی ہیکہ جلد از جلد بقایہ تمام زمینوں کا ناپ تول کر کے ان کا معاوضہ ادا کیا جائے اور مظلوم عوام کے چلہوں کے بقایہ جات کو بھی جلد از جلد ادا کیا جائے مزید غریب اور مظلوم عوام کے صبر کا امتحان نہ لیا جائے وگرنہ آنے والے وقتوں میں اس کے بھیانک نتائج آسکتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اس میگا پراجیکٹ پر پورے گلگت بلتستان باالخصوص دیامر کے عوام کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہیئے کیونکہ ملک کے مفاد کی خاطر دیامر کے عوام نے کسی بھی قربانی سے دریخ نہیں کیا ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button