تحریر میر آفاق ظفر
غریب ہونا بحثیت جرم ،غریب کی فریاد سنے کےلئے کوئی بھی تیار نہیں ہے ان کی فریاد نہ ہی وقت کا حکمران سنتا ہے ، نہ کوئی محکمہ سنتا ہے اور نہ ہی پولیس۔جب کبھی کسی غریب اور مجبور شخص کو کسی محکمے میں کام درپیش ہو تو اس محکمہ میں جانے سے پہلے ان کو سو بار سوچنا پڑتا ہے کیونکہ غریب ہونا بحثیت جرم ہے۔
میں نے آج تک کسی امیر شخص کو پولیس ناکوں میں روکے نہیں دیکھا ہے، پولیس ناکوں میں اکثر چھوٹی گاڑی والوں اور غریب ٹیکسی ڈرائیور کی ہی تلاشی لی جاتی ہے،کیونکہ غریب ہونا بحثیت جرم ہے ۔
قارئین کرام ! مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا کو پڑ رہا ہے کہ آج یہ بیماری ہمارے معاشرے میں اس قدر پھیل گئی ہے کہ ہم میں سے ہر دوسرا بندہ اس میں مبتلا ہے،جن کے پاس چند پیسے آتے ہیں وہ اپنی ماضی بھول جاتا ہے۔اس وقت مجھے قرآن مجید کی ایک آیت یاد آرہی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
” اگر میں نے کسی کو مال و دولت دی ہیں تو وہ یہ نہ سمجھے کہ میں اس سے راضی ہوں اور اگر میں نے کسی کو مال و دولت سے کم نوازا ہے تو وہ یہ نہ سمجھے کہ میں اس سے ناراض ہوں، بلکہ دونوں آزمائش ہورہی ہے”
قارئین کرام ! میں اپنے اس خوبصورت موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک اور بات شامل کرنا چاہونگا کہ اگر اس دنیا میں کسی شخص کو یہ موقع ملتا کہ وہ کس گھر میں پیدا ہونا چاہتا ہے تو آج دنیا میں کوئی بھی غریب پیدا نہ ہوتا۔ غریب پیدا ہونا بری بات نہیں ہے، بلکہ غریب مرنا بری بات ہے۔ اگر آج کے زمانے کی طرف نظر دوڑائی جائے تو امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے ۔
قارئین کرام میں اپنے اس موضوع کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ایک اور بات شامل کرنا چاہونگا کہ آج ہمارے معاشرے میں غربت کی وجہ ایک ہماری سوچ بھی ہے ، یوں تو ہم وقت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں،مگر ہماری سوچ نہیں بڑھ رہی ہے ۔ ہم آج بھی 90 کی صدی کی سوچ میں ہیں ۔اگر ہم آج کے زمانے میں اپنے گھر والوں سے ٹیکنالوجی کی بات کرے ،تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنا وقت ضائع کررہے ہیں ۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں آدمی اپنے گھر میں بیٹھ کر پیسہ کماسکتا ہے، اس دور میں بھی ہم ملازمت کی تلاش کررہے ہیں ۔ غریب ہونا بری بات نہیں ہے بلکہ سوچ کا غلامانہ ہونا بری بات ہے ۔
دنیا میں ایک ریسرچ کے مطابق 85 فیصد لوگ اپنی سوچ اور اپنی محنت سے کروڑ پٹی بنتے ہیں, اس لیے ہمیں پہلے اپنی سوچ کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔
جب کبھی معاشرے میں ایسے موضوعات پر کوئی بحث کرے تو معاشرے میں اس کو احساس کمتری کا شکار سمجھتے ہیں یا پھر پاگل کا خطاب دیا جاتاہے۔ معاشرے کے ایسے لوگوں کے بارے میں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ جس نے سردی کو کھڑکیوں سے دیکھی ہو اور غربت صرف کتابوں میں پڑھی ہو ، ان لوگوں کو غریبوں کا احساس نہیں ہوتا ہے ۔
اس دور کے پیش نظر تہذیب حافی کا ایک شعر
مجھے یاد آیا کہ
” میری غربت نے مجھ سے میری دنیا چھین لی حافی
میری اماں تو کہتی تھی کہ پیسہ تو کچھ نہیں ہوتا ”
قارئین کرام ! غریب ہونا ایک ایسا تکلیف دہ تجربہ ہے جس کے تجربے نے بچوں سے ان کا بچپن ، جوانوں سے ان کی جوانی چھین لی ہے ۔
آخر میں ، میں صرف یہ کہنا چاہونگا کہ غربت اس دنیا کی سب سے ظالم چیز ہے،جو کسی انسان کی عمر یا خوبصورتی نہیں دیکھتی،اس لئے ہمیں غرور وتکبر کے بجائے اپنی زندگی کو سادگی اور اللّٰہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے میں چلانا چاہیے،کیونکہ امیری اور غریبی کسی انسان کے ہاتھوں میں نہیں،بلکہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہے۔کسی انسان کو امیر سے غریب اور غریب سے امیر بننے میں وقت نہیں لگتا۔
اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے بتائے ہوئے راستے میں چلانے کی توفیق عطا فرمائے ۔
اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو !